#نبیﷺ_کی_کہانی_سناؤ
غلام مصطفےٰ نعیمی
ایڈیٹر سواد اعظم دہلی
رات کو سونے سے پہلے ہمارے بچے زنیرہ فاطمہ اور محمد (اریب مصطفیٰ) یہ پیاری سی فرمائش کرنا نہیں بھولتے؛
"ابو، نبی کی کہانی سناؤ"
صدیوں سے ہمارے معاشرے میں بچوں کو کہانی سنانے کی رسم چلی آرہی ہے، شاید ہی کوئی گھر ایسا ہو جہاں بچوں کو کہانی نہ سنائی جاتی ہو، یا بچے گھر وال
Read More
#نبیﷺ_کی_کہانی_سناؤ
غلام مصطفےٰ نعیمی
ایڈیٹر سواد اعظم دہلی
رات کو سونے سے پہلے ہمارے بچے زنیرہ فاطمہ اور محمد (اریب مصطفیٰ) یہ پیاری سی فرمائش کرنا نہیں بھولتے؛
"ابو، نبی کی کہانی سناؤ"
صدیوں سے ہمارے معاشرے میں بچوں کو کہانی سنانے کی رسم چلی آرہی ہے، شاید ہی کوئی گھر ایسا ہو جہاں بچوں کو کہانی نہ سنائی جاتی ہو، یا بچے گھر والوں سے کہانی سنانے کی فرمائش نہ کرتے ہوں، کیوں کہ جب تک کہانی نہ سنائی جائے بچوں کو نیند نہیں آتی:
ایک ہاتھی، ایک راجہ، ایک رانی کے بغیر
نیند بچوں کو نہیں آتی، کہانی کے بغیر
_______کہانیاں ہماری تہذیب وثقافت کا اہم حصہ ہیں۔دنیا کی ہر تہذیب میں قصہ گوئی کی روایت موجود رہی ہے۔عام طور پر کہانی سنانے کی ذمہ داری دادا دادی یا نانا نانی کے حصے میں آتی ہے۔ایک تو ان کے پاس فرصت کی کمی نہیں ہوتی دوسرے بچوں کے مزاج سے ان کی ہم آہنگی بھی جلد ہوجاتی ہے۔کبھی کبھی یہ ذمہ داری خالہ/پھوپھی اور ماں باپ بھی نبھا لیا کرتے ہیں۔
عموماً کہانیاں بچوں کو بہلانے کے لیے سنائی جاتی ہیں لیکن کہانیاں سنانے کا بنیادی مقصد بچوں کی تربیت اور ان کی ذہنی نشوونما ہونا چاہیے، تاکہ بچے کھیل کھیل میں ان چیزوں کو سیکھ جائیں جو ان کی فکرو شخصیت کا لازمی حصہ بن جائیں تاکہ جب وہ شعور سنبھالیں تو یہ چیزیں ان کی طبیعت میں رچ بس چکی ہوں۔مشہور مفکر ارسطو کا کہنا تھا؛
"ادب اور کہانیاں صرف انسانوں کی تفریح کے لیے نہیں بلکہ انسانیت کا سبق سکھانے اور قاعدے قانون بنانے میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔"
عام طور پر ہمارے معاشرے میں بچوں کو پریوں، راجہ، رانی، بھوت پریت اور فرضی کہانیاں سنانے کا رواج زیادہ ہے، مگر اسلام نے اس حوالے سے بھی ہماری اچھی رہنمائی کی ہے،اللہ تعالیٰ نے قصہ گوئی کو فکر و تدبر اور عبرت ونصیحت کا ذریعہ قرار دیا ہے؛
لَقَدۡ کَانَ فِیۡ قَصَصِہِمۡ عِبۡرَۃٌ لِّاُولِی الۡاَلۡبَابِ(يوسف:١١١)
"بیشک ان کے قصوں سے عقل مندوں کی آنکھیں کھلتی ہیں"
فَاقۡصُصِ الۡقَصَصَ لَعَلَّہُمۡ یَتَفَکَّرُوۡنَ(الاعراف:١٧٦)
"تو تم نصیحت(دینے والی کہانی) سناؤ کہ کہیں وہ دھیان کریں۔"
یعنی بچوں کی ذہنی صلاحیت کے مد نظر ایسے قصے کہانیاں سنائی جائیں جن میں واقعات کے ساتھ اعتقادی واصلاحی فکر، نظریاتی تبلیغ اور معاشرتی اچھائیوں کا پہلو بھی شامل ہو تو اس سے بچوں کی ذہنی تفریح بھی ہوگی اور کہانی کہانی میں اخلاقی اور نظریاتی طور پر بھی پختہ ہوتے جائیں گے۔
کہانی سنانے کا فائدہ
بچے جب دنیا میں آتے ہیں تو ان کا دل ودماغ ہر نقش وصورت سے خالی اور کورے کاغذ کی طرح ہوتا ہے۔وہ اپنے آس پاس کا ماحول دیکھتے ہیں اور قریب کی آوازوں کو سنتے ہیں، دیکھ کر اور سن کر ہی وہ سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں، ماہرین کے مطابق بچے کسی بھی چیز کو تین طرح سے سیکھتے ہیں:
1، دیکھ کر
2، سن کر
3،حرکت کرکے
امام غزالی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
"بچہ والدین کے پاس امانت ہے، اس کا پاک دل ایک ایسا جوہرِ نایاب ہے جو ہر نقش و صورت سے خالی ہے لہٰذا وہ ہر نقش کو قبول کرنے والا اور جس طرف اسے مائل کیا جائے اس کی طرف مائل ہو جانے والا ہے۔اگر اسےاچھی باتوں کی عادت ڈالی جائے اور اس کی تعلیم و تربیت کی جائے تو اسی پر اس کی نَشْوو نَما ہوتی ہے،جس کے باعث وہ دُنیا و آخرت میں سعادت مند ہو جاتا ہے۔
(احیاء العلوم)
یعنی بچے کی ذہنی ڈوائس پوری طرح بلینک(Blank) ہوتی ہے، اس کے آس پاس جیسا پروگرام ایکٹو ہوتا ہے بچے کی میموری میں ویسا ہی پروگرام انسٹال ہوجاتا ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ ہم بچے کے ارد گرد ایسا ماحول بنائیں جو اس کی ذہنی نشوونما کو اچھی طرح ڈیولپ کرے تاکہ بچہ کی شخصیت نکھر کر سامنے آئے۔
جرنل آرکائیوز آف ڈیزیز ان چائلڈ ہڈ(Journal Archives of Diseases in childhood) نامی میگزین میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق کہانیاں بچے میں سوچنے کی صلاحیت کو مہمیز کرتی ہیں جبکہ ان کی یادداشت اور سیکھنے کی صلاحیت میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔علاوہ ازیں بچوں کے ذخیرہ الفاظ میں اضافہ ہوتا ہے جبکہ ان کی زبان بھی بہتر ہوتی ہے۔تحقیق میں کہا گیا ہے کہ کہانیاں سننے کے برعکس جو بچے رات سونے سے قبل ٹی وی دیکھتے ہیں، یا اسمارٹ فون، کمپیوٹر یا ویڈیوز گیمز کھلتے ہیں انہیں سونے میں مشکلات پیش آتی ہیں۔
______بچوں کی تربیت کے حوالے سے نبی اکرم ﷺ کا یہ فرمان ہماری رہنمائی فرماتا ہے:
أَدِّبُوا أَولَادَكُم على ثَلاثِ خِصَالٍ: حُبِّ نَبِيِّكُم، وَحُبِّ أَهلِ بَيتِهِ، وَقِرَاءَةِ القُرآنِ، (الجَامِعِ الصَّغِيرِ، وأَخرَجَهُ الدَّيلَمِيُّ في الفِردَوسِ)
"آقائے کریم ﷺفرماتے ہیں:اپنی اولاد کو تین چیزیں سکھاؤ، اپنے نبی کی محبت، اہل بیت کی محبت اور قرآن کی محبت۔"
صالحین کا قول ہے:
علم ولدك القرآن والقرآن سيعلمه كل شئی۔
"اپنی اولاد کو قرآن سکھاؤ قرآن اسے سب کچھ سکھا دے گا۔"
______کئی بار لوگ یہ سوچتے ہیں کہ چھوٹے بچوں کو کس طرح سکھایا جائے؟ ابتداً میں بھی یہی سوچا کرتا تھا مگر پھر سوچا کہ جب ہم بچوں کو گود میں کِھلاتے ہیں یا گلے سے لگا کر تھپ تھپاتے ہیں تو "میرا گڈا کتنا پیارا، میرا بابو کتنا سوہنا، میرے مُنے سَو جا، میرا راجہ کتنا اچھا" جیسے جملے ضرور دہراتے ہیں تو اس وقت انہیں قرآن کی تلاوت یا نعت مصطفیٰ سنانے میں کیا پریشانی ہے؟بس اس کے بعد فقیر نے اپنے بچوں کو قرآن/نعت سنانا معمول بنا لیا۔کئی بار تو ایسا ہوتا کہ رات کے کسی پہر بچے رونا شروع کرتے، ان کی والدہ جب خاموش کراتے تھک جاتیں تو ہمیں اٹھا کر بچے سونپ دیتیں اور خود فری ہوجاتیں، اس وقت بچوں کو سورہ فاتحہ ، سورہ اخلاص ، سورہ یٰسین وغیرہ سنانا شروع کردیتا اور بچے پر سکون ہوجاتے، سنتے سنتے ہی سو جایا کرتے تھے۔جب بچوں نے بولنا شروع کیا تو فقیر نے حضور نبی اکرم ﷺ کے سیرت پاک کے چنندہ واقعات کہانی کے طور پر سنانا شروع کیے، اس ضمن میں حضور کی بچوں سے محبت، حضرت عائشہ کی سوئی کھونے کا واقعہ، ہرنی کے جال میں پھنسنے کا واقعہ، بچوں کے اذان کی نقل اتارنے کا واقعہ، صحابی کے اونٹ کا واقعہ، جیسے درجنوں واقعات سنا چکا ہوں اور لگاتار سناتا رہتا ہوں، کچھ واقعات لگاتار دہراتا بھی ہوں اس کا نتیجہ یہ آیا کہ اب بچے خود فرمائش کرتے ہیں۔دو روز پہلے میں نے بڑے شہزادے محمد میاں سے کہا کہ آج آپ مجھے نبی کی کہانی سناؤ۔
مجھے بے حد خوشی ہوئی جب ہمارے ڈھائی سالہ بیٹے نے اپنے انداز میں ہرنی کا پورا واقعہ سنا ڈالا، یعنی بچے کو جو سنایا گیا وہ ضائع نہیں گیا بلکہ اس کے دل ودماغ میں پیوست ہوگیا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہمارے بچے اب یہ فرمائش بھی کرنے لگے ہیں کہ:
"ابو، نبی کے شہر لیکر چلو!
اللہ تعالیٰ کی ذات سے امید ہی نہیں یقین کامل ہے کہ ہمارے بچوں کی خواہش ایک دن ضرور بالضرور حرمین شریفین کی زیارت کا موقع فراہم کرے گی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ
کہانی سنانے کے طریقے
بچے چونکہ تشکیلی دور میں ہوتے ہیں اس لیے ادیبانہ اور فلسفیانہ انداز کو بالکل نہیں سمجھ پائیں گے اس لیے انہیں سمجھانے کے لیے سادہ اور عام فہم الفاظ اور انداز کی ضرورت ہے، چند طریقے جو مفید ثابت ہوسکتے ہیں:
🔸 سادہ الفاظ استعمال کریں، تاکہ بچے کو سمجھنے میں آسانی ہو۔
🔸 فطری لہجے میں ہی کہانی سنائیں، بناوٹی اور مصنوعی انداز اختیار نہ کریں۔
🔸 بچے کے تاثرات اور ہاؤ بھاؤ پر نظر رکھیں کہ وہ توجہ سے سن رہا ہے کہ نہیں، تاکہ اس کی دل چسپی کا پتا چل سکے۔
🔸 بچے کے تاثرات دیکھتے ہوئے کہانی کے الفاظ و انداز میں ہلکی پھلکی تبدیلی بھی کرتے رہیں تاکہ دل چسپی بنی رہے۔
🔸کہانی کے اختتام پر اس کا خلاصہ یا کہانی میں موجود سبق ضرور بتائیں۔
رات کو سونے سے قبل بچے کے ساتھ کچھ وقت ضرور گزاریں اس سے بچوں اور والدین کے تعلق مضبوط ہوتے ہیں۔اس وقت والدین تمام بیرونی سرگرمیوں اور دیگر افراد سے دور صرف اپنے بچے کے ساتھ ہوتے ہیں جو ان میں تحفظ کا احساس پیدا کرتا ہے، ایسے موقع پر والدین موبائل، ٹی وی میں نہ لگے رہیں، بچوں کے ساتھ کھیلیں، بات کریں، ہنسیں اور انہیں ایسی کہانیاں سنائیں جو ان کی تفریح کے ساتھ شخصیت سازی بھی کریں، بہ حیثیت والدین یہ ہماری ذمہ داری اور بچوں کا حق ہے۔
١٨ ذوالقعدہ ١٤٤٢ھ
30 جون 2021 بروز بدھ