عُرس سلطان الہند اسپیشل
دوسری قسط
*پِھر آیا عُرس سالانہ مُعین الدین چشتی کا**سَجا ہے دیکھو کاشانہ مُعین الدین چشتی کا*
*جہاں پر سَر جُھکاتے ہیں شہنشاہِ زمانہ بھی**ہے وہ دَربارِ شاہانہ مُعین الدین چشتی کا* ---------------------
*مجذوبِ وقت حضرت ابراہیم قندوزی رحمتہ اللہ علیہ کی آمد Read More
عُرس سلطان الہند اسپیشل
دوسری قسط
*پِھر آیا عُرس سالانہ مُعین الدین چشتی کا**سَجا ہے دیکھو کاشانہ مُعین الدین چشتی کا*
*جہاں پر سَر جُھکاتے ہیں شہنشاہِ زمانہ بھی**ہے وہ دَربارِ شاہانہ مُعین الدین چشتی کا* ---------------------
*مجذوبِ وقت حضرت ابراہیم قندوزی رحمتہ اللہ علیہ کی آمد اور حضرت خواجہ خواجگان خواجہ غریب نواز رضی اللہ عنہ کا ترکِ دنیا کرنا:*
جگر گوشۂ بتول، عطاۓ رسول، سلطان الہند، خواجہ خواجگان، خواجہ غریب نواز حضرت سلطان سید معین الدین حسن چشتی رحمتہ اللہ علیہ ایک دن ترکے میں ملے ہوئے باغ میں درختوں کو پانی دے رہے تھے کہ اس بستی کے ایک مجذوب حضرت ابراہیم قندوزی رحمتہ اللہ علیہ اشارۂ غیبی پر باغ میں تشریف لائے۔
جب حضرت خواجہ غریب نواز رحمتہ اللہ علیہ کی نظر اس صاحبِ باطن مجذوب پر پڑی تو ادب واحترام کے ساتھ ان کے قریب گئے اور ایک سایہ دار درخت کے نیچے آپ کو بٹھادیا اور تازہ انگور کا ایک خوشہ سامنے لاکر رکھ دیا، خود دوزانو ہوکر بیٹھ گئے۔ حضرت ابراہیم قندوزی رحمتہ اللہ علیہ نے انگور کھائے اور خوش ہوکر بغل سے روٹی کا ایک ٹکڑا نکالا اور اپنے منہ میں ڈالا دانتوں سے چبا کر حضرت خواجہ غریب نواز رحمتہ اللہ علیہ کے منہ میں ڈال دیا اس طرح حق وصداقت اور عرفانِ خداوندی کے طالبِ حقیقی کو ان لذّتوں سے فیض یاب کردیا۔ روٹی کا حلق میں اترنا تھا کہ دل کی دنیا بدل گئی۔ روح کی گہرائیوں میں انوارِ الٰہی کی روشنی پھوٹ پڑی، دنیا سے نفرت اور بے زاری پیدا ہوگئی اور آپ نے دنیاوی محبت کے سارے امور سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔ باغ، پن چکّی اور دوسرے ساز و سامان کو بیچ ڈالا، ساری قیمت فقیروں اور مسکینوں میں بانٹ دی اور طالبِ حق بن کر وطن کو چھوڑ دیا اور سیر وسیاحت شروع کردی۔
*علمِ شریعت کا حصول:*حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے وطن عزیز سے نکل کر سمرقند وبخارا کا رُخ کیا جو کہ اس وقت پورے عالمِ اسلام میں علم وفن کے مراکز کے طور پر جانے جاتے تھے جہاں بڑی بڑی علمی ودینی درس گاہیں تھیں جن میں اپنے زمانے کے ممتاز اور جیّد اساتذۂ کرام درس وتدریس کے فرائض انجام دیا کرتے تھے۔ ان درس گاہوں میں دنیا بھر سے علمِ دین کی طلب رکھنے والے افراد کھنچ کھنچ کر آتے اور اپنی تشنگی کو بجھاتے تھے۔ حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ بھی یہاں آکر پورے ذوق وشوق اور لگن کے ساتھ طلبِ علم میں مصروف ہوگئے۔ تفسیر، حدیث، فقہ، کلام اور دیگر ضروری علوم کا درس لیا اور کامل مہارت حاصل کرلی، آپ کے اساتذہ میں نمایاں طور پر مولانا حسام الدین بخاری اور مولانا شرف الدین صاحب شرع الاسلام علیہما الرحمہ کے نام لیے جاتے ہیں۔
*پیرِ کامل کی تلاش:*سمر قند اور بخارا کی ممتاز درس گاہوں میں جید اساتذۂ کرام کے زیرِسایہ رہ کر حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ نے علومِ شریعت کی تکمیل کرنے کے بعد روحانی علوم کی تحصیل کے لیے اپنے سفر کا آغاز کیا۔ اس زمانے میں علمِ طریقت کے مراکز کے طور پر پوری دنیائے اسلام میں عراق وحجازِ مقدس مشہور و معروف تھے، جہاں صالحین اور صوفیائے کاملین کی ایک کثیر تعداد بادۂ وحدت اور روحانیت و معرفت کے پیاسوں کی سیرابی کا کام کررہی تھی۔
حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ نے کائناتِ ارضی میں اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی مختلف اشیاء کا مشاہدہ و تفکر اور اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں اولیاء و علماء اور صلحا وصوفیہ کی زیارت کرتے ہوئے بغداد شریف، مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کی سیر و سیاحت اور زیارت کی سعادتیں حاصل کیں۔
پھر پیرِ کامل کی تلاش و جستجو میں مشرق کی سمت کا رُخ کیا اورعلاقۂ نیشاپور کے قصبۂ ہارون پہنچے جہاں ہادیِ طریقت رہبر شریعت حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ کی خانقاہ میں روحانی وعرفانی مجلسیں آراستہ ہوتی تھیں۔ خانقاہِ عثمانی میں پہنچ کر حضرت خواجہ غریب نوا رحمۃ اللہ علیہ کو منزلِ مقصود حاصل ہوگئی اور آپ مرشدِ کامل حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ کے حلقۂ ارادت میں شامل ہوگئے اور ان کے مبارک ہاتھوں پر بیعت کی۔
(جاری ہے)
پیشکش۔ فیضان اشرف الاولیاء گروپ گدائے اشرف الاولیاء
محمد ساجد حسین اشرفی